آپ نے حضرت ابراہیمؑ کے متعلق کبھی ایک بات نوٹ کی؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی personality کے متعلق کافی کچھ بتایا ہےمثلاً دو جگہ تو یہ بتایا ہے کہ وہ ایک بہت ہی نرم دل کے مالک تھے ، ایک بہت پیار کرنے والی شخصیت، ایک رحمدل انسان۔ (التوبہ 09:114 ، ھود 11:75)

لیکن اگر آپ میری طرح قرآن پاک کو سٹڈی کر رہے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ قرآ ن پاک میں ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی نظر آتا ہے ۔

ایک متجسس شخصیت ، ایک curious personality ۔

مثلاً کبھی وہ ستاروں کی طرف دیکھ کر سوچتے ہیں کہ شاید یہ میرا رب ہے ، لیکن پھراسے غروب ہوتا دیکھ کر اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ (الانعام 06:76)

پھر کبھی وہ چاند کو چمکتا دیکھ کروہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید یہ میرا رب ہے لیکن وہ بھی غروب ہو جاتا ہے ۔ (الانعام 06:77)

صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ جب وہ سورج کو نکلتا دیکھتے ہیں تو اس کی بارے میں بھی تجسس کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ تو سب سے بڑا ہے ، شاید یہ میرا رب ہے لیکن بالآخر اسے بھی غروب ہوتا دیکھ کر اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ (الانعام 06:78)

آپ کچھ نوٹس کر رہے ہیں ؟ He is pondering, He is curious ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نبوت کے بعد بھی ان کی curiosity ، ان کا تجسس ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ مجھے مردے زندہ ہوتے دیکھنے ہیں (البقرۃ 02:260) اور اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے بھی ہیں کہ ابراہیم کیا تمہیں ایمان نہیں ہے ؟ تو وہ آگے سے جواب دیتے ہیں کہ ایمان تو ہے لیکن اے اللہ میرے دل کو سکون آ جائے گا ۔ (البقرۃ 02:260)

اور پھر چار پرندے ذبح کر کہ پہاڑوں پر رکھنے والا واقعہ ہوتا ہے کہ جو زندہ ہو کر ان کے پاس بھاگتے چلے آتے ہیں ۔ (البقرۃ 02:260)

لیکن اپنے اس پیٹرن میں مجھے جو سب سے خوبصورت بات نظر آ رہی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کے تجسس کو پورا کیا ۔

ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھا دیں تاکہ اسے پورا یقین آ جائے۔ (الانعام 06:75)

صرف ایک منٹ کے لیے امیجن کریں کہ انہوں نے کیا کیا مخلوقات دیکھ لی ہوں گی ۔

اگر آپ امیجن نہیں کر پا رہے تو میں آپ کو ایک hint دے دیتا ہوں ۔

عبدالرحمٰن بن عائش ایک تابعی تھے ، انہیں یہ بات ایک صحابی نے بتائی کہ ایک مرتبہ ہم صبح کے وقت محمد الرسول اللہؐ کے پاس گئے تو دیکھا کہ آپ کے چہرے پر ایک حیرت انگیز سی خوشی اور چمک نظر آ رہی ہے ۔

جب ہم نے پوچھا تو آپؐ نے ہمیں رات کو دیکھا اپنا ایک خواب سنایا کہ آج رات میں نے اپنے رب کو سب سے بہترین شکل میں دیکھا اور میں نے کہا کہ …

اے اللہ میں حاضر ہوں ، اے اللہ میں حاضر ہوں ! اور پھر اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان اس طرح رکھا کہ مجھے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اور اس وقت آسمانوں اور زمین کی ہر چیز میرے سامنے آ گئی ۔ (مسند أحمد 8979)

اور یہاں تک بتانے کے بعد پھر آپؐ نے الانعام کی وہی آیت تلاوت کی (جو میں نے ابھی آپ کو بتائی) کہ ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات دکھا دیں تاکہ اسے پورا یقین آ جائے ۔

اور اب آپ امیجن کریں کہ ابراہیمؑ کو کون کونسی مخلوقات دکھا دی گئی ہوں گی ۔

امیجن کریں کہ اس وقت ابراہیمؑ نے کیا کیا کچھ دیکھ لیا ہو گا کہ جس نے انہیں اتنا یقین دلا دیا کہ وہ اپنے بیٹے کو بھی قربان کرنے لگے تھے ۔

لیکن مزے کی بات کہ پیٹرن ، یہاں break نہیں ہوتا ۔

جس رات آپؐ معراج پر گئے تھےتو اس رات کے لیے سورۃ نجم میں بالخصوص ایک آیت آئی ۔ ایک ایسی آیت جو چھٹے اور ساتویں آسمان کے realm کے حوالے سے ہے۔

(سدرۃ المنتہیٰ اور جنت الماویٰ کے قریب) اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں دیکھ لیں ۔ (النجم 53:18)

ساتویں آسمان کے اوپر وہ جگہ ، جہاں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں ، آپؐ نے ایک اور شخص کو بھی دیکھا تھا ۔ ایک ایسے نبی ، کہ جو نشانیوں کے بارے میں بہت متجسس ہوا کرتے تھے ۔۔۔ حضرت ابراہیمؑ ۔

لیکن دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پیٹرن یہاں بھی break نہیں ہوتا ۔

حضرت ابراہیمؑ کے بیٹھنے کے posture پر غور کریں ، آپؐ نے بتایا کہ وہ بیت المعمور کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے ۔(مشکوٰۃ المصابیح 5863)

جیسے ایک مطمئن شخص ، اپنے تمام تجسس پورے ہونے کے بعد ٹیک لگا کر سکون سے بیٹھا ہو ۔ یاد ہے انہوں نے ہی تو وہ دعا مانگی تھی کہ اے اللہ ، مجھے کوئی بڑی نشانی دکھا دے تاکہ میرے دل کو سکون آ جائے ۔

اور اس وقت بڑی بڑی نشانیوں والی جگہ پر وہ کیسے پرسکون ہو کر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔

لیکن میرا پیٹرن یہاں بھی break نہیں ہوتا ۔

اس تھریڈ کا آغاز میں نے ابراہیمؑ کی شخصیت کے ایک خاص پہلو سے کیا تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ تعریف کی ہے کہ ابراہیمؑ ایک بہت نرم دل انسان تھے ، ایک مخلص دل والے انسان ۔

لہٰذا ساتویں آسمان کے اوپر انہیں ایک ایسا چارج دیا گیا جسے واقعی ایک نرم دل والا انسان ہی کر سکتا ہے ۔

امام بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں معراج کی رات کا واقعہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ وہ واقعہ ہے کہ جس کے اندر مجھے اپنا پیٹرن پورا ہوتا ہوا ملا ۔

کہ جب آپؐ نے حضرت ابراہیمؑ کو دیکھا تو اس وقت ان کے پاس بہت سارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی کھیل رہے تھے ، یہ ان بچوں کی روحیں تھیں جو بہت چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جایا کرتے ہیں اور یہ وہ بچے ہیں جن کی روحیں ایک بہت ہی نرم دل نبی کے پاس ساتویں آسمان پر کھیلنے چلی جاتی ہیں ۔

وہ نرم دل نبی جو اپنے تمام تجسس پورے ہونے کے بعد پرسکون ہو کر بیت المعمور کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔

ایک ایسے درخت کے نیچے کہ جس کے پتے چراغوں جیسے ہیں ۔

جواب دیں