اپنے بچوں خصوصاً نوجوان اولاد کا تعلق قرآن و دین سے کیسے جوڑا جائے؟

اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ بچوں کی آخرت سے زیادہ والدین اپنی آخرت کی فکر کریں اور بچوں سے صرف اپنا تعلق خوشگوار کرلیں تو بچے خود بخود قران اود دین سے جڑ جائیں گے

ہم الٹ کر رہے ہوتے ہیں!

خود اپنے الفاظ اور اعمال سے ، بچوں کو قران کے قریب نظر نہیں آتے لیکن بچوں کو وعظ،سختی،دھمکی اور لالچ سے قران سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچپن میں روتے پیٹے،قاری صاحب سے قرآن پڑھنا تو سیکھ لیتے ہیں،مگر جیسے ہی اپنے اختیار کا استعمال کرنا آتا ہے تو قران تو قران نماز سے بھی بھاگتے ہیں ۔

ایک حدیث ہےکہ

” انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے”۔

تو پھر آپ اپنے بچے خصوصا نوجوان بچے سے تعلق ایک دوست کی طرح گہرا کریں اور دین کی رسی( عبادات و معاملات) کو مضبوطی سے پکڑ لیجئے۔آپ کا بچہ خود بخود دین کی طرف کھینچا چلا آے گا

اب تعلق کیسے گہرا ہو؟

🔹 اول :

ایک اچھے دوست کی طرح بچے کو غیر مشروط محبت اور عزت دیں اور اس کی نیت ، کردار اور صلاحیتوں پر بھروسہ کریں۔

🔹 دوم :

بچے سے باتیں کریں۔اکیلے میں روزانہ کچھ منٹone on) (one اور ہفتے میں کچھ دیر سب کے ساتھ کم ازکم ایک دفعہ( family time)۔

مگر خیال رہے کہ باتوں میں غیبت ،حکم،نصیحت اور بن مانگے مشورے سے گریز کریں۔ سنیں زیادہ،بولیں کم۔

🔹 سوم :

تین "C” کو اپنی اور بچے کی گفتگو سے خارج کردیا جائے یعنی

Criticize( تنقید)

Compare(تقابل)

Compete ( مقابلہ بازی)

🔹 چہارم :

گفتگو میں الفاظ کا استعمال ایسا ہو کہ بچے خصوصا نوجوانوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو مثلا

⭕ فورا مسجد جاو!( حکم)

⭕ تم روزانہ نماز قضا کرتے ہو( الزام)

⭕ مجھے تم سے یہی امید تھی(مایوسی)

⭕ بے نمازی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔( وعظ و وعید)

اس کے بجائے

✅ چلیں ہم سب نماز ادا کر لیں پھر کھانا کھاتے/ کھیلتے ہیں

✅ مجھے بڑی خوشی ہوئی آج آپ مسجد گۓ۔

🔹 پنجم :

فیملی ٹائم میں اپنی زندگی،سیرت نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم ،صحابہ کرام ، عظیم لوگوں اور عام لوگوں کے سبق آموز واقعات سناے جائیں۔ اشفاق احمد صاحب کی کتاب” زاویہ” عام لوگوں کے واقعات سنانے کے لیے اچھی تحریر ہے۔

🔹 ششم "

بچوں اور نوجوانوں کی دلچسپیوں میں شامل ہوا جائے۔board games,sports,video games,گھومنا،پکانا،باغبانی،جانور پالنا۔غرض ہر اس شوق کو اپنانے کی کوشش ہو جو بچے کا شوق ہے۔

🔹 ہفتم "

خود بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کا علم حاصل کیا جائے

۔اسکالرز، مثلا،سلمان آصف صدیقی،ڈاکٹر جاوید اقبال،قاسم علی شاہ وغیرہ کے لیکچرز ۔

کتابیں اور اصلاح نیٹ ورک کی ورکشاپس اور کورسز سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

🔹 ہشتم :

قران سے جوڑنے کے لیے روایتی طریقوں کے بجائے جدید طریقے اپنائے جائیں مثلا

ایسے اسکالرز کے لیکچرز،animated series سب ساتھ بیٹھ کر سنیں اور دیکھیں جو نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں اور authentic ہوں

ایسے گروپس سے بچوں کو متعارف کرایا جائے جو activity based علم دیتے ہوں جیسے اسلامی جمعیت طلبہ ،youth club، البرھان ،الہدی، الشعور وغیرہ اور جہاں بھی انہیں بہتر ساتھی ملک سکیں۔

🔹 نہم :

خود کو خالص اللہ کی رضا کے لیے قران اور دین سے جوڑیں۔بچے والدین کو تلاوت کرتے،تفسیر پڑھتے،تجوید اور عربی سیکھتے،کورسس کرتے،خطاطی کرتے اور سب سے بڑھ کر اپنے روزمرہ کے مسائل کا حل کتاب عظیم سے ڈھونڈتے نظر آئیں۔اب اگر بچے قران پڑھ نہیں بھی رہے،لیکن والدین اور نیک لوگوں کی شکل میں چلتا پھرتا قران دیکھ رہے ہیں اور تعلق اچھا ہے تو یقین مانیں آگے جا کر یہی اولاد باعمل مسلمان، قاری ، حافظ،عالم،مفسر اور مفکر اور متقیوں کا امام بھی بنے گی ۔ان شاء اللہ۔

🔹 دہم :

اور سب سے ضروری کام یعنی دعا۔نفلی سجدوں میں،تہجد میں،فرض نماز کے بعد،اپنی نیکی کے وسیلے سے ہر قبولیت کے اوقات میں اولاد کے لیے دعا کریں۔

بچوں کو چوم کر،ان کا ہاتھ پکڑ کر،ان کو گلے لگا کر با آواز بلند مثبت الفاظ کے ساتھ دعائیں دیں ۔

مگر، سوال یہ ہے کہ کیسے معلوم ہوگا کہ تعلق بہتر ہو ریا ہے؟؟

اگر بچہ یا نوجوان اولاد اسکول/ کالج سے آتے ہی اپنی باتیں سنانیں کے لیے آپ کو ڈھونڈیں، آپ کےسلام پھیرنے سے پہلے آپ کے پاس آکر بیٹھ جائیں۔آپ کے ساتھ وقت گزارنا چاہئیں ( کبھی،کبھی ہی سہی😊 ) تو سجدہ شکر ادا کریں۔” تم شکر ادا کرو میں اور دوں گا”

اب آخری بات

یہ ساری تبدیلیاں نہ آپ اپنے اندر یک دم پیدا کرسکتی ہیں نہ ہی بچے! ایک وقت میں ایک تبدیلی پر کام کریں۔اونچ نیچ آے گی۔ صبر سے انتظار کریں کیوں کہ” یہ وقت بھی گزر جائے گا” اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔

ایک بانس کا درخت چار پانچ سال صرف جڑ پکڑتا ہے اور اوپر کچھ نظر نہیں آتا۔پھر یکایک ایک لمبا،تناور درخت بہت تیزی سے بڑھتا ہے۔

بہت سے بچے بھی بانس کے درخت کی طرح ہوتے ہیں۔آپ کا اپنے بچوں سے بہترین تعلق اور آپ کی دین سے قربت وہ جڑیں ہیں جو اندر ہی اندر مضبوط ہو رہی ہیں۔تناور درخت بچوں کا وہ۔کردار اور ان کی دین سے وابستگی ہے جس کا آپ کچھ عرصے بعد مشاہدہ کرسکیں گی ۔

ان شاء اللہ!🌹

انتخاب: عابد چوہدری

جواب دیں