سوال تو ہمارے ایمان کا ہے
”میں کینٹین میں داخل ہوئی تو برگر کا پیکٹ اس کی میز پر ادھ کھلا رکھا تھا۔ میں تو کچھ نہ بولی وہ خود ہی خجل سی ہوکر بولی۔۔۔”یار ایک میرے برگر سے کیا فرق پڑتا ہے کسی ملک کی اکنامی پر؟”
میں نے نظریں چراتے ہوئے کہا "فرق ان کو نہ بھی پڑے ہمیں تو پڑتا ہے کیونکہ ہم اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہیں۔
جب فیصلہ اجتماعی ھے تو ہم دلیل نہ لائیں۔ باقی جس کا جو جی چاھے کرے۔”
بیٹی نے آج ہاسپٹل سے واپسی پر اپنی دوست کا یہ واقعہ سنایا کہ جب سے میکڈونلڈ نے 50 فیصد رعایت دی ہے اچھے اچھوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں۔
میں نے کہا: "ایمان کی آزمائش کی ہر دور میں الگ قسمیں ہوتی ہیں۔
جب کہا گیا تھا کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں نہ پکڑو تو ہفتہ کے دن ھی مچھلیاں سطح سمندر پر کثرت سے نمودار ہوتیں۔
جب کہا گیا کہ آج کے دن اس دریا کا پانی مت پیو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، قرآن کہتا ہے کہ ایک دو کے سوا سب ہی سیراب ہوئے۔
اس وقت کی تشنگی تو رفع ہو گئی، مگر قرآن نے یہ بتا دیا کہ تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ وہاں حساب انفرادی ہوگا مگر یہاں سزا اجتماعی بھی ملے گی۔
مجھے پچھلے ہفتے کی وہ نشست یاد آئی جب پروفیشنل یونیورسئیز کے طالبات کے ساتھ ایک نشست میں ہم سوچ رہے تھے کہ اپنے ایمان کی گواہی کے لیے اس وقت کیا کر سکتے ہیں؟
انجیئرنگ یونیورسٹی کی ایک طالبہ بولی: "ہم نے کینٹین والے انکل سے کہا کہ یہاں کوک اور لیز نہ رکھیں۔
وہ بولے: "یہاں سیاست مت کریں” یہ سن کر غصہ تو آیا مگر اگلے دن ہم تین چار دوستوں نے طے کیا کہ کینٹین جانے والی طالبات کو الگ الگ کنوینس کریں گے کہ ہمیں کیوں ان چیزوں کا بائیکاٹ کرنا ہے؟
پھر ہم راستوں میں کھڑے ھوکر طالبات سے سرگوشیاں کرتے رہے۔
کوئی ہفتہ ہی گزرا ھوگا کہ ہم کینٹین جاکر حیران۔۔۔
لیز کی جگہ کُرلیز، گولڈن چپس اور دوسری پاکستانی مصنوعات واشیاء اور طرح طرح کے چیوڑے اور پیپسی کی جگہ پاکولا۔۔ وغیرہم
نقصان کی تلافی کےلیے انکل نے ایک کارنر پر گرم سموسے کے اسٹال کا بندوبست کر ڈالا۔۔ لگتا تھا ان کی آمدن کافی متاثر ہوئی تھی۔
بات تو اتنی سی ہے کہ ہم استطاعت بھر چھوٹی چھوٹی کوششوں ہی کے مکلف ہیں۔
بڑے کام تو رب جس سے چاھے گا لے لے گا۔۔
وہ تو ہمارا محتاج نہیں۔۔ اس کی اپنی اسٹینڈنگ آرمی (ابابیلوں) کی شکل میں آج بھی ان ہاتھی والوں کو لمحوں میں بھس کر سکتی ہے۔
سوال تو ہمارے ایمان کا ہے۔