انٹرنیٹ کے ذریعے نفسانی خواہشات کی تکمیل اور لمحہ فکریہ
جس انٹرنیٹ کو مثبت مقاصد کے لیے استعمال کر کے ہم بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے اس کو ہم نے ہوس اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھ لیا ہے
سب والدین کو الرٹ ہوجانا چاہیے
کچھ دن پہلے ايک کزن نے کسی آئی ڈی کو فالو کيا۔ کسی لڑکی کی تھی ۔ مارے تجسس کے ميں نے وہ آئی ڈی کھولی ، وہ تو کوئی اور ہی جہاں تھا ۔ اس لڑکی کی بےشمار تصاوير تھيں ۔ ہر تصوير پرستائش بھرے کمنٹس کی بھرمار تھی ۔ انتہائی چيپ سٹيٹس اور سستی رومانوی شاعری بھری پڑی تھی۔
جس چيز نے مجھے متوجہ کيا وہ لائيو چيٹ تھی ۔ ميں نے ويڈيو آن کی ، وہ اس وقت کی تو نہيں تھی ليکن ايک دن پہلے کی تھی ۔ جس ميں ايک نوجون لڑکی جس کی عمر 15 سے 18 سال کے درميان ہو گی ، فل ميک اپ ميں بڑی ادا سے بيٹھی ہوئی تھی اوراپنے فالوورز کے ساتھ چيٹ ميں مصروف تھی ، اس کی ادائيں ، اس کا انداز کسی کو بھی گمراہ کرنے کے ليے کافی تھا ۔ مجھے بہت عجيب لگا ۔ اسے بند کيا تو ايک اور لائيو چيٹ سامنے آئی ، اسے چيک کيا تو اس ميں وہی لڑکی اپنی ايک سہيلی کے ساتھ اسی طرح فل ميک اپ ميں موجود تھی اور دونوں لائيو گپيں لگا رہی تھيں ۔ کمرے ميں فل لائيٹ تھی اور دروازہ بند تھا ۔
شنيد ہے کہ رات کا وقت ہو گا ، والدين سو رہے ہوں گے اور لڑکياں اس اعتماد کی دھجياں اڑا رہی ہوں گی جو ان کے والدين کوان پر تھا ۔
بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ ويڈيو بند کی ۔ اس کزن کو سمجھايا تو اس نے معذرت کی اور کہا ائندہ ايسا نہيں کروں گا ۔
يہ واقعہ ميں بھول چکی تھی کہ کل اچانک ايک پيج کا ايڈ سامنے آيا ۔ ايسے ہی چيک کرنے کے ليے کھولا تو دنيا جہاں کی فضول باتوں سے بھرا پڑا تھا ۔ سب سے اوپرلائيو چيٹ کی ونڈو دکھائی دی ۔ تو پھر مارے تجسس کے کھول لی ۔ اندھيرا گھپ تھا ليکن ايک انتہائی محتاط اور آہستہ آوازميں السلام عليکم فرينڈز کی آوازآئی اور پھرمزيد جملے ۔
ليکن جس بات نے مجھے آج لکھنے پر مجبور کيا وہ يہ کہ يہ بچی بھی رات کے اندھيرے ميں جب والدين سو رہے تھے توفيس بک پرلائيو چيٹ کر رہی تھی ۔
يہ ہمارے ارد گرد کيا ہو رہا ہے ؟
ہماری بچياں ، ہمارے بچے کس طرف جا رہے ہيں ؟
جس انٹرنيٹ کو مثبت مقاصد کے ليے استعمال کر کے ہم بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے اس کو ہم نے ہوس اور نفسانی خواہشات کی تکميل کا آسان راستہ سمجھ ليا ہے ۔
يہ لڑکياں جو لائيو چيٹ ميں مصروف تھيں يا وہ لڑکے جو ان کے ساتھ چيٹ کی شکل ميں اپنے جذبات کو بيان کر رہے تھے ۔ ہاۓ کيوٹی ، ہاۓ بيوٹی فل، جانو لگ رہی ہو، جيسے کمنٹس لکھ رہے تھے اور لڑکياں اداؤں سے اور لہجے کو مخمور بناتے ہوۓ تھينک يو ڈيسنٹ ، شکريہ ڈيئر، سو سويٹ آف يو جيسے جملے ادا کرتی ہوئی معلوم نہيں اپنی کس ناتمام خواہش کی تکميل ميں مصروف تھے۔
ميں نے صرف دو واقعات بيان کيے ہيں جو ميری نظر سے گزرے ہيں ، فيس بک پر اس طرح کے ہزاروں پيجز ہيں ۔ يہ ہمارے ليے لمحہ فکريہ ہے ۔
سب والدين کو اب الرٹ ہو جانا چاہيے ۔
ميں چاہوں گی کہ آج پڑھنے والے سب احباب اس ضمن ميں تجاويز ديں کہ جوان لڑکے ، لڑکيوں کے والدين کو ايسے کون سے اقدامات کرنے چاہييں کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے ۔ اور جن کے اس عمر کے بچے ہيں ان کو چاہيے کہ وہ آج ان تجاويز کو پڑھيں اور کوشش کريں کہ قابل عمل تجاويز پر غور کريں اور ہو سکے تو ان پر عمل کريں ۔
تحریر: راحیلہ ساجد
انتخاب: عابد چوہدری