زبردستی کی شادیاں
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً۔ (سوة النسآء: 03) عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں دو دو سے ، تین تین سے ، اور چار چار سے ۔ ہاں اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں ) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے مشاورت نہ کر لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے۔ (متفق علیہ)
قرآن وحدیث میں زبردستی شادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے لڑکا لڑکی دونوں کا رضامند ہونا ضروری ہے اگر دونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو تو نکاح نہیں ہو سکتا۔
اولاد کی تعلیم وتربیت اور مناسب جگہ پر ان کا رشتہ کرانا والدین کی شرعی ذمہ داری اور اولاد کا حق ہے۔ والدین کےلئے حکم ہے کہ وہ شادی کراتے وقت اولاد کے جذبات اور ترجیحات کا خیال رکھیں۔ اور جب والدین اور بچوں کی پسند میں اختلاف آجائے تو والدین کو چاہئیے کہ مل بیٹھ کر اور باہمی مشاورت سے کوئی بہتر صورت نکالیں ورنہ زندگی بھر کی بےچینی اور نااتفاقی رہتی ہے جس سے گھر کا سکون غارت ہو جاتا ہے۔
شادی کے معنی خوشی کے ہیں یہ بندھن خوشی اور محبت کا ہونا چاہیے۔ ہماری شادیوں میں یہ گفتگو تو ہوتی ہے کہ ہر ہر رسم کیسے ادا ہو گی۔ نہیں بات ہوتی تو یہ کہ کیا لڑکا لڑکی دونوں اس بندھن پر دل سے راضی ہیں؟ کیا وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں؟ کیا شادی کی اس دیگ میں محبت کی کوئی مٹھاس بھی ہے؟ یا یہ صرف دو خاندانوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جو پورا کیا جا رہا ہے۔
شادی کا مطلب خوشی وتسکین ہے اسلام میں شادی کا مقصد ضمیر کا استقرار ہے تاکہ مرد وعورت محبت، ہمدردی، ہم آہنگی، باہمی تعاون اور خیر خواہی کے ساتھ زندگی گزاریں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب اس کام میں دونوں فریقوں کی سوفیصد رضامندی اور محبت شامل ہو۔
اسلام نے عورت کو بہت سے حقوق دیئے ہیں اس میں پہلی چیز شریک حیات کے انتخاب میں اس کی پسند اور معیار کا خیال رکھنا اور نکاح کے وقت سوفیصد اس کی رضا مندی ہونا ضروری ہے۔
جبری شادی کا شکار عام طور پر لڑکی ہی بنتی ہے لیکن لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ لڑکیاں جن کی شادی ان کی مرضی کے خلاف کر دی جاتی ہے وہ ایک انتہائی تکلیف دہ تجربے سے گزر رہی ہوتی ہیں ان کےلئے یہ عمر قید کے برابر ہوتی ہے۔ زبردستی شادیوں کے نتیجہ میں بعض لڑکیاں خود کشی تک کر بیٹھتی ہیں والدین کو بجائے بچوں کی خوشی کے خاندان والوں کے سوال جواب کی فکر ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ایک انسان پوری زندگی اَن چاہے شخص کے ساتھ کیسے گزار سکتا ہے؟۔
اور لڑکوں کی بھی ایسی جگہ شادی کر دی جاتی ہے جہاں وہ راضی نہیں تھے تو وہ اب اَن چاہی بیوی کو وہ مقام نہیں دے پاتے جو اس کا حق ہے وہ ہر وقت تناؤ کا شکار رہتے ہیں اور گھر سے باہر سکون تلاش کرتے ہیں۔
اسی طرح جب کوئی بھی لڑکی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والدین کی خواہش پر قربان تو ہو جاتی ہے لیکن یہ قربانی اسے ہر دن دینی پڑتی ہے نہ وہ خاوند کو خوش رکھ پاتی ہے اور نہ بچوں کی بہتر تربیت کر سکتی ہے۔ زبردستی کی شادی نہ صرف لڑکی کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے شوہر اور بچوں کو بھی متاثر کرتی ہے اور ان سب کے ذمہ دار وہ والدین ہوتے ہیں جو اپنی جھوٹی انا کی خاطر اور خاندان میں اپنی ناک اونچی رکھنے کےلئے اپنے بچوں کی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔
جب ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں میں یعنی کپڑے، جیولری وغیرہ میں بچیوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھتے ہیں تو زندگی کے اتنے بڑے فیصلے میں ان کی پسند کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟ کیا خاندان کا دکھ اولاد کے سکھ سے بڑھ کرہوتا ہے؟ والدین کےلیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بچے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر لیں۔ ہاں اگر وہ بالکل غلط فیصلہ کر رہے ہوں تو ان کو سمجھائیں، ان کی اصلاح کریں۔
باقی بچوں کی شادی ان کی مرضی کے مطابق کرنے میں آخر کیا قباحت ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پسند کی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں لیکن ناکام تو ارینج میرج بھی ہو جاتی ہیں جبکہ پسند کی شادی میں والدین کےلئے فائدہ ہے اگر بچے خوش رہیں گے تو ہمیشہ والدین کے ممنون رہیں گے اور اگر خدانخواستہ کوئی اونچ نیچ ہوتی ہے تو والدین کو ذمہ دارتو نہیں ٹھہرا سکتے۔
آج کل تو بچیوں پہ جسمانی تشدد تک کر کے زبردستی ایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے پر راضی کیا جاتا ہے جس کو وہ پسند نہیں کرتی یا اس کو شوہر کے طور پر قبول کرنا نہیں چاہتی، یاد رکھیں یہ شرعاً اور قانوناً جرم ہے۔
والدین سمجھ لیتے ہیں کہ اگر ابھی لڑکے یا لڑکی کی زبردستی شادی کر دی جائے تو بعد میں خود ہی محبت ہو جائے گی اور سب صحیح ہو جائے گا جبکہ ایسا نہیں ہوتا یا تو عمر قید کی جیسی زندگی گزارنی پڑھتی ہے یا طلاق ہو جاتی ہے یا پھر خودکشی کر لی جاتی ہے۔
قرآن وحدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں شادی سے قبل بیٹی کی اجازت لینا ایک لازمی امر ہے اور اگر اس کا پاس نہ رکھا جاۓ تو پھر ایک عاقل وبالغ لڑکی کے پاس اس بات کا حق موجود ہے کہ جو نکاح اس کی رضا کے بغیر زبردستی کروایا گیا ہے وہ اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔
والدین اور بزرگوں سے معذرت کے ساتھ گزارش ہے کہ اس طرح کی شادیاں نہ تو حیاء اورعفت کو فروغ دے سکتی ہیں نا ہی اسلام کو مطلوب ہیں۔