وقت کے بدلتے دھاروں سے لڑتے یہ نوجوان
جدید چینلجز ۔ الحاد اور سیکولرازم ۔ رب کے بندے
مغربیت کے زیر اثر ۔ ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی اور سوشل میڈیا نے نئی نسل کو کئی چیلنجز سے دوچار کیا ۔ یہ سارا مواد اور نظریات مغرب سے آئے۔ ہمارا نظام تعلیم انگریزی ہے اور ایک بڑا طبقہ خصوصاً خوشحال خاندان جن کے نوجوان یہاں کے ایلیٹ تعلیمی اداروں سے پڑھے۔ مغرب میں آمد ورفت تھی یا ان کے ادب و میڈیا ۔ فلم و دیگر مواد تک رسائی ۔
ہمارے دینی طبقے کے پاس تمام تر اخلاص اور تبلیغی جدوجہد کے باوجود اس چیلنج کا حل نہیں تھا۔ شائد ابھی تک نہیں ہے۔ ان مسائل پر مدارس و تبلیغی مراکز توجہ ہی نہیں دے سکے۔ بڑی وجہ انگریزی زبان بھی ہے۔ دوسرا ان چینلجز کی تعلیم و تربیت کا انتظام نصاب کا حصہ نہیں اور نہ اہل مدارس کی توجہ کا مرکز۔ الحاد و مستشرقین کا چیلنج ۔ سوالات اور سب سے بڑھ کر ماڈرن ازم کی آڑ میں سیکولر اور لبرل نظریات۔ ہمارا دینی طبقہ مخلص ہے۔ تبلیغی محنت بہت زیادہ اور قربانیوں کے انبار بھی ۔لیکن زبان کے فرق ۔ اس صورت حال کے ادراک نہ ہونے کے باعث ان مسائل پر عبور ہی نہیں تھا ۔ ہمارے ہاں عرب ممالک سے دینی تعلیم و استفادے کا رجحان ہے لیکن یہ چیلنج عرب کا ہے ہی نہیں مغرب کا تھا ۔ عرب سے مستفید علماء کا میدان ہی مختلف ہوتا ہے۔ اسلاف کے اقوال اور حرمین کی برکات سے مزین ایک معاشرے کے باسی اس صورتحال سے کبھی دوچار ہی نہیں ہوئے ہوتے ۔ الحاد و سیکولرازم کے چیلنج سے آگاہی تو ہوتی ہے لیکن بہت کم اس کو اپنا تبلیغی میدان بناتے ہیں۔ لیکن یہاں تو صورتحال یہ تھی کہ ایک نسل مغربیت کے زیر اثر آ گئی ۔
ایسے میں پہلی کوشش برطانیہ سے شروع ہوئی ۔ وہاں کے صالح نوجوانوں نے تنظیم بنائی اور دعوت کا میدان سنبھالا ۔ یہ داعی یورپ کے بعد پھر۔ دنیا بھر کے انگریزی دان طبقے تک پہنچے ۔ ان کی خدمات لاجواب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا کام لینا ہوتا ہے ۔ پھر یہاں کئی ادارے اور دعوتی سیٹ اپ بنے ۔ یوتھ کلب نے سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ برطانیہ اور امریکہ کے داعیوں کے زیر اثر یہاں بھی حلقہ احباب بننے لگا ۔ اب الحمدللہ کئی ادارے ۔ داعی اور تنظیمیں میدان عمل میں ہیں ۔ انہوں نے ایک نسل کو بچایا ہے ۔ مغربیت ۔ الحاد اور سیکولرازم سے متاثر نوجوانوں کے لیے امید کی کرن بنے ہیں ۔ یہ دینی طبقے کے ہیروز ہیں ۔ بہت سے نومسلم ہیں یا پھر جہالت کی گہرائیوں سے دین کے نور تک پہنچنے والے ۔
گزشتہ دنوں حمزہ زورٹس پاکستان آئے ہوئے تھے ۔ بارہ سال پہلے بھی انہیں سنا ۔ کیا خوبصورت دلائل اور کتنا دلکش انداز ۔ نام ہی کافی ہے کہ ہزاروں لوگ ہمہ تن گوش بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اپنے قبول اسلام کی کہانی سناتے ہیں تو رولا دیتے ہیں۔ نجی محفل میں بیٹھے تو وہ اب اس ارض پاک جو اسلام کے نام پر بنا یہاں کے دینی حالات سے پریشان ہیں ۔ یہاں الحاد اور لادینیت کیوں پھیل رہی ہے؟ ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ جب کسی نے ذکر کیا کہ یہاں بہت سے خاندان خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے . حتی کہ بہت سے دینی خاندان ۔ کتنی خوبصورت بات کہ دعوت کا مقصد محض لفاظی ۔ دلائل کے انبار سے جیتنا ۔ بحث و مباحثہ نہیں بلکہ صرف اصلاح کی کوشش ہونا چاہیے۔
یہ کارروان بڑھ رہا ہے۔ نئے چہرے شامل ہو رہے ہیں ۔ ان کا کسی سے مقابلہ نہیں ۔ ہمارے ہاں کے روایتی مدارس ۔ علماء کرام ۔ دور دراز دیہات میں دین کی شمع کئے ہوئے علماء ۔ مدارس میں مستند سنبھالے قربانیان دیتے اور معاشرے کی بے حسی کے باوجود درس وتدریس سے جڑے شیوخ الحدیث و مدرسین ۔ مساجد میں قرآن پاک پڑھاتے قراء کرام ۔ راتوں کی نیندیں چھوڑ کر تبلیغ سے جڑے پنجابی و دیگر خطباء ۔ عرب سے پڑھ کر معاشرے کو اسلاف ۔ سنت و حدیث سے جوڑنے میں کوشاں اہل علم ۔ سب انتہائی قابل قدر ہیں ۔ دینی جماعتوں سے جڑے کارکنان کو خراج عقیدت ۔ سب ہی اہم ہیں اور اس معاشرے کی ضرورت ۔ کسی ایک کا وجود کسی دوسرے کے مقابل نہیں ۔ ہر ایک کے میدان الگ الگ اور معاشرتی تبدیلی کے لیے کسی بھی میدان کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا ۔
آئیے ان کی بھی حوصلہ افزائی کریں ۔ یہ ہماری نسل کو بچانے میں کوشاں ہیروز ہیں ۔ یہ دعوت سے جڑے صالح نوجواں ہیں ۔ ان کی غلطیوں کوتاہیوں پر رہنمائی کیجئے ۔ ان کے معاون بن جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب اور دعوت کے ہر میدان سے جڑے سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین
محمد عاصم حفیظ