ہمیں ان نعروں اور وعدوں سے خوف آتا ہے

ایک وقت تھا کہ جب ہمیں کچھ یوں بتایا جاتا تھا کہ ہم دنیا میں نمبر ایک تھے، ساری دنیا کی انٹیلیجنس مل کر بھی ہمارا مقابلہ نہ کر سکتی تھی، پوری دنیا کو ہماری خفیہ ناک رگڑوا اور خاک چٹوا سکتی تھی، دنیا کا کوئی کام ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم نے کشمیر تو بس آزاد کروا ہی لیا تھا، ادھر فلسطین کو اللہ کے بعد صرف ہمارا سہارا تھا۔ سعودی عرب ہمارے بغیر امن کا سانس نہ لے سکتا تھا۔ مشرق وسطی صبح صبح اٹھ کے ہم سے پوچھتا تھا کہ آج ان کا دن کیسا رہے گا۔ چائنہ کی ہم مجبوری تھے کہ ہمارے بغیر دنیا میں اس کی حیثیت ہی بھلا کیا تھی؟ امریکہ ہر روز اٹھ کے سیٹلائٹ سے چیک کرتا تھا کہ پاکستانی ہمیں فتح کرنے کہیں نکل تو نہیں پڑے۔ پھر لیکن ایک دن پتہ چلا کہ

ہمیں تو اپنا چولہا جلانے کیلئے پیسے چاہئیں اور اس کیلئے ہم ساری دنیا سے باری باری بات کر رہے ہیں اور دنیا ہمارے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جو ایک مالدار قرض لینے والوں کے ساتھ عموما کیا کرتا ہے۔

ہمیں پتہ چلا کوئی ہمیں فون نہیں کرتا اور کوئی ہمارا فون نہیں اٹھاتا،

ہمیں پتہ چلا امریکہ ہمارے ایبٹ آباد سے بندہ اٹھا کے لے گیا اور ہمارے ریڈار اور چوکیدار ستو پی کے سوتے رہے۔

ہمیں پتہ چلا دنیا نے ہماری اجازت کے بغیر سانس لینے سے کیا ڈرنا الٹا ہم آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر اپنے غریبوں کو بجلی کے بل میں چند پیسے تک نہیں چھوڑ سکتے۔

وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں اپنا ملک کیسے چلانا ہے۔ ہمارا صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کون ہونا چاہیے۔ یہاں تک اس نے ہم پر ظلم کیا کہ کوئی ایسا بندہ بھی وزیراعظم بنا کے بھیج دیا، جس کا پاکستانی شناختی کارڈ تک نہ بنا تھا اور جلدی میں ہم نے اپنے وزیراعظم کا جو شناختی کارڈ بنوایا اس پر پتہ وزیراعظم ہاؤس کا لکھوا دیا۔ جس انڈیا کی مت چوہوں نے ماری تھی اور ہمارے شیروں کے رعب سے عنقریب وہ ناقابل شمار ٹکڑوں میں بٹنے والا تھا، وہ چاند پر پہنچ گیا اور جس بڑے صاحب نے کشمیر آزاد کروانا تھا اس نے انڈینز کیلئے کرتار پور کی راہداری اور اپنی بانہیں کھول دیں۔

اے بھائی!

دراصل اس دن کے بعد ہمیں تو یوں لگا جیسے کسی نے ہمارا چولا اتار دیا ہو اور ہمیں خواب سے جگا دیا ہو، سو اس دن کے بعد ہمیں ان نعروں سے خوف آنے لگا ہے، جو ہمیں جام جہالت پلا کے مخبوط الحواس کئے رکھیں۔ دنیا ہم فتح نہ کر سکیں، اب اس کا کوئی غم نہیں۔ ہم تو اس پر بھی خوش ہیں کہ کم از کم ہمارے ووٹ سے ہمارا وزیراعظم ہی منتخب ہو جائے اور وہ کسی دفعہ مدت بھی پوری کر ہی لے اور کبھی کبھار وہ بے چارہ وزیراعظم ہاؤس سے جیل جانے کے بجائے اپنے گھر بھی چلا جائے اور کم از کم کوئی ایک وزیراعظم ہی غدار، سیکیورٹی رسک ،کرپشن کا بادشاہ اور جرائم پیشہ نہ نکلے۔

یقین کیجئے، دنیا ہم نہ بھی فتح کر سکیں، ہم اسی پر خوش ہیں۔ اور اس راہ میں ہم نے جو کچھ اور جتنا کچھ کھویا ہے، اس سے سچ پوچھئے تو اب بڑے بڑے نعروں اور دعووں سے ہمیں تو بھائی ویسے بھی بہت ڈر اور بہت بوئے خوں آنے لگی ہے۔ اپنی آئندہ کئی نسلوں کے رائیگاں جاتے خوابوں اور خون کی بو۔

تحری: یوسف سراج

جواب دیں