سردیوں اور گرمیوں کی اشیاء اور ہمارا معاشرتی رویہ
سالہا سال تک پرانے، چھوٹے اور آؤٹ آف فیشن کپڑے سنبھال سنبھال کر رکھنے کا رواج صرف ایشیائی ملکوں خاص طور پر پاکستان اور انڈیا میں ہے ۔
اضافی کپڑے گھر میں رکھنے کو جگہ ہے نہ الماریوں میں گنجائش ۔۔۔ لیکن پھر بھی صندوق اور الماریاں بھر رکھی ہیں۔ ورنہ اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ اگر آپ کے پاس پانچ گرم جوڑے ہیں اور اس سال آپ تین مزید بنوانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پہلے اس اسٹاک سے دو عدد جوڑے نکال کر کسی کو دے دیجیے ۔
خنکی آہستہ آہستہ اپنے پنجے گاڑ رہی ہے، اکثر گھروں میں گرم لباس نکال لیے گئے ہیں اور ہلکے کپڑے سنبھال کر رکھ دیے گئے ہیں، لیکن گرمیوں کے ایسے کپڑے اور جوتے سنبھال کر نہ رکھیں جو آپ کے بچوں کو چھوٹے ہو چکے ہیں یا ایسے کپڑے جو آپ نے اس سال نہیں پہنے (یقیناً اگلے سال بھی نہیں) تو بہتر ہے ان کو دوبارہ الماری یاصندوق میں دبانے کی بجائے اسی سال کسی ایسے گھرانے کے حوالے کر دیں جہاں اگلے سال یہ استعمال ہو سکیں۔
اسی کے ساتھ اب جو سردی کے کپڑے اور جوتے نکالے گئے ہیں اگر ان میں کچھ اضافی ہیں یا سائز میں فرق ہے تو سردی گزر جانے کے بعد کسی کو دینے کی بجائے ابھی موسم کے آغاز میں کسی کو دے دیں تو سفید پوش گھرانے وہ استعمال کر سکیں گے ۔
بعض گھرانوں میں تو اپنے خاندان میں ہی کپڑوں کا لین دین چل جاتا ہے، کسی بھائی یا بہن کے بچوں کے کپڑے دوسرے بہن / بھائی کی اولاد کے کام آ جاتے ہیں ۔
چھوٹے بچوں کا قد چونکہ تیزی سے بڑھتا ہے تو ایک سیزن کے کپڑے دوسرے سیزن میں کام نہیں آتے۔ ہر بار نئے خریدنے کی بجائے آپس میں ہی دے دلا کے کام چل جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اٹیچی کیس لبالب اور الماریاں دبادب بھرنے کی بجائے بہتر ہے ان میں چند اور ضروری جوڑے ہی رکھیں۔ سنبھالنے میں بھی آسانی اور دھونے میں بھی آسانی رہے گی۔ خاص طور پر جرابوں کے جوڑے، جرسیاں، ٹوپیاں، اگر اضافی ہیں تو دھو کر، پیک کرکے کسی سفید پوش گھرانے میں بھیج دیں ، آج کل اتنی مہنگائی ہے کہ جہاں کھانے کا راشن ہی پورا نہ ہوتا ہو وہاں موسمی لباس کا انتظام کیسے ہو ؟
تحریر: آصفہ عنبرین قاضی