حق وراثت اور بےوقوف بہن!
بہن سے پورے کھیت اپنے نام لکھوا لینے کے بعد سال بعد اسی زرعی زمین سے ایک آدھ فصل کی بوری پوری رعونت سے اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بھیک کی طرح بہنوں کو دیتے ہوئے بھائی کو شرمندگی نہیں ہوتی بلکہ احسان، مہربانی اور صلہ رحمی کہلاتا ہے۔
جسے چند دن کھانے کے بعد بے وقوف بہن تمام سال حقِ ہمشیرگی ادا کرتی رہتی ہے۔ جھولیاں بھر بھر دعائیں دیتی ہے اور سسرال میں تگڑا میکہ ہونے کا بھرم قائم کرتی ہے۔ اس مہربانی کے جواب میں اکثر بہنوں کی آنکھوں میں آنسوں, گلے میں کڑواہٹ, دل میں بد دعائیں اور لبوں پہ "ویرے شالا وسدا رہ” کی دعا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو میکہ سلامت رکھنے کی آس میں اپنا گھر اجاڑ بیٹھتی ہے۔
عموماً وراثت کی تقسیم پہ نیک بھائی بہنوں کو گھر بلا کے ٹھنڈا پانی پلا کے بڑی شرافت سے یہ پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ ہاں وئی کس کس بہن نے حصہ لینا ہے لینا ہے تو بتاؤ۔ تقسیم کے وقت یہ سوال پوچھنے والا نہیں ہوتا بلکہ چپ چاپ عمل کرنے والا ہوتا ہے جو قابض ہے اسی کی ذمہ داری بھی ہے بہن کا حصہ اسے پکڑاؤ، وہ رکھے یا خیرات کرے یا دان کرے اس کی مرضی۔ وراثت میں بیٹی بیٹے سے نصف حصے کی شرعی حقدار ہے جہیز کی لعنت کو ختم کر کے وراثت کو رواج دیجیے۔ اپنی ذات سے آغاز کیجیے یاد رکھیے ہم اپنے کئے کے جواب دہ ہیں ابا کے اعمال کی جوابدہی ہماری ذمہ داری نہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وہ ماں جسے کبھی اس کے بھائیوں نے وراثت سے محروم رکھا تھا اور وہ تمام عمر دل میں محرومی کا یہ روگ پالے بیٹھی تھی حق غصب کرنے میں آج بیٹوں کی ہمنوا ہوتی ہے۔
بہنوں کے بھائیو یہ نری جہنم کی آگ ہے جو یہاں سے کما کے اپنی آخرت کی جہنم یہیں سے دہکا رہے ہو ۔۔ دین صرف پڑھنے کا نہیں عمل کرنے کا نام ہے۔ اگر کوئی بہن بغاوت کرتے ہوئے اپنے حصے کا تقاضا کر دے تو اس پہ بہنوئی کی لالچی طبعیت ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ بھائی بہن سے ملنا ہی چھوڑ دیتے ہیں مصروفیات کے باعث ملنا تو ویسے بھی چھوٹ جاتا ہے اس لئے اپنے حقوق وفرائض جان کے جیو۔
تحریر: زارا مظہر
انتخاب: عابد چوہدری