تعلیمی اداروں کی پرائیوٹائزیشن، کمرشلائزیشن پالیسی نافذ
سیلف فنانس پروگرامز ، ریاست کس طرح تعلیم کا بوجھ اتار رہی ہے؟
تعلیمی اداروں کی پرائیوٹائزیشن کا ایک بار پھر چرچا ہے ۔ ہزاروں ادارے اس کی پالیسی کی نظر ہو رہے ہیں ۔ لیکن یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ۔ حکومت گزشتہ کئی سالوں سے ایک پالیسی پر گامزن ہے جس کے تحت سرکار تعلیم کا بوجھ اتار رہی ہے ۔ کبھی این جی اوز کے نام پر ، کسی فلاحی ادارے کی آڑ میں تعلیمی اداروں کی لوٹ سیل جاری ہے ۔ آئیے اس صورتحال کو سمجھتے ہیں ۔ پرائیوٹائزیشن ، کمرشلائزیشن سے مراد کیا ہے ۔ سیلف فنانس کے تحت تعلیمی اداروں میں کیا ہو رہا ہے اور کس طرح تعلیم دن بدن غریب اور متوسط طبقے سے بہت دور جبکہ مڈل کلاس کے لئے بھی مشکل ترین ہو چکی ہے ۔پرائیوٹ ایجوکیشن مافیاز کس قدر مضبوط ہیں اور پالیسی سازی میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے یونیورسٹیز کو دیکھتے ہیں ۔ لاہور کے معروف ادارے ایف سی کالج ، کینئیرڈ کالج محکمہ تعلیم سے لیکر فلاحی اداروں کے حوالے کئے گئے ۔ آج ان کی فیسز کسی بھی پرائیوٹ ادارے سے کہیں زیادہ ہیں ۔ اربوں کی پراپرٹی سمیت اب یہ ادارے کسی کے لئے آمدن کے ذرائع ہیں ۔ ایچ ای سی کے فنڈز محدود کر دئیے گئے ہیں اور یونیورسٹیز کو کہا گیا ہے کہ اپنی آمدن بڑھائیں ۔ پنجاب یونیورسٹی اور دیگر سرکاری جامعات جو کہ میریٹ پر غریب اور متوسط طبقے کے لئے دستیاب تھیں ۔ اب ان کی مارننگ کلاسز کی فیسز فی سمسٹر چالیس ہزار سے زائد ہیں ۔ جبکہ جامعات کو سیلف فنانس پروگرامز پروموٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ آپ حیرا ن ہوں گے بی اے۔ بی ایس سی کے بعد شروع ہونیوالے پانچویں سمسٹر کے پروگرامز مارننگ میں دستیاب ہی نہیں ہیں اور صرف ایوننگ میں سیلف فنانس کے طور پر شروع کئے گئے ہیں جس کی فیس ساٹھ ہزار فی سمسٹر سے زائد ہے ۔ سرکاری جامعات نے الحاق شدہ کالجز کے لئے امتحانی فیسز میں بھی دو سے تین ہزار فی امتحان اضافہ کرکے کروڑوں کا ریونیو اکھٹا کیا ہے ۔ پالیسی یہ ہے کہ یونیورسٹیز صرف تیس فیصد بجٹ سرکار سے لیں باقی فیسوں میں اضافے ، سیلف فنانس پروگرامز ، کمرشل سرگرمیوں اور دیگر ذرائع سے حاصل کریں ۔
سرکاری تعلیمی اداروں کا دوسرا حصہ کالجز ہیں ۔ گزشتہ سات سال میں درجنوں کالجز کو یونیورسٹی کا درجہ دیکر اس سیکٹر کو محدود کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے یونیورسٹی بنتے ہی کالجز کا بجٹ محکمہ تعلیم نہیں دیتا بلکہ سیلف فنانس اور کمرشلائزیشن پالیسی کے تحت وہ خود ہی جنریٹ کرتی ہے ۔ اسی طرح کالجز میں بھی مارننگ کے ساتھ ساتھ ایوننگ پروگرامز کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ کالجز ابھی تک کم فیس کے تحت مارننگ پروگرامز کرا رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں اگلا پراجیکٹ بڑے کالجز کو یونیورسٹی کا درجہ دینا جبکہ چھوٹے کالجز کو یونیورسٹیز کو انتظامی اختیار دے کر ان کے ماتحت بنانا ہے ۔ اس طرح کالجز میں بھی کم فیسز میں تعلیم ختم ہو جائے گی ۔ ان کا فیس سٹرکچر بھی یونیورسٹیز جیسا ہو جائے گا ۔
تیسر سیکٹر سکولز کا ہے ۔ سب سے زیادہ تجربات اس پر ہی ہو رہے ہیں ۔ کیونکہ مجبوری یہ ہے کہ قانون کے تحت میٹرک تک مفت تعلیم دینا حکومت کا فرض ہے ۔ اس سیکٹر کے حوالے سے کئی آپشنز تشکیل دی گئی ہیں ۔ پنجاب کے سرکاری سکولز اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ بچوں کو پڑھا رہے ہیں ۔ ٹیچرز کی تعداد تین لاکھ اڑتیس ہزار ہے ۔ حکومت نے گزشتہ سات سال سے کوئی ایک بھی ٹیچر بھرتی نہیں کیا ۔ جس سے لاکھوں آسامیاں خالی ہیں ۔ خصوصا پرائمری ایجوکیشن کی حالت ٹیچرز کی کمی کے باعث انتہائی خراب ہے ۔ اب اس کو جواز بنا کر یعنی جب ٹیچرز ہی دستیاب نہیں تو یقینا طلبا ء کی تعداد کم ہو گی ایسے چار ہزار سکولز کو سات سال قبل مختلف این جی اوز کے حوالے کر دیا گیا تھا ۔ اب دوبارہ 4500 سکولز دئیے جا رہے ہیں ۔ حکومت ان سکولز کو چلانے کے لئے فی سٹوڈنٹ ان این جی اوز کو ادا کر تی ہے ۔ یعنی حکومت مستقل ٹیچرز بھرتی کرنے کی بجائے یہ سکولز اپنی قیمتی بلڈنگز سمیت فلاحی اداروں کے نام پر من پسند افراد کے حوالے کر رہی ہے جو کہ انتہائی کم تنخواہ پر ٹیچرز رکھ کر خوب نفع کما رہے ہیں ۔ بڑے سکولز کے بارے میں نئی پالیسی یہ ہے کہ انہیں ماڈل قرار دے کر ایک اتھارٹی کے حوالے کیا جا رہا ہے ۔ آگے جا کر معیار کے نام پر ڈویژن پبلک سکولز کی طرح ان سکولز میں بھاری فیسز نافذ کر دی جائیں گیں ۔ المیہ یہ ہے کہ سرکاری سکولز جنہیں پرائیوٹ مافیا کے حوالے کیا جا رہا ہے ان میں سے نوے فیصد کی زمینیں مقامی لوگوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے عطیہ کیں تھیں ۔ بلڈنگز بنا کر دیں اور کلاس رومز سمیت دیگر سہولیات فراہم کیں ۔ اب ان سکولز کو پرائیوٹ کرکے کسی کے لئے کمائی کا ذریع بنایا جا رہا ہے ۔ اس کا ایک المناک پہلو سرکاری سکولز میں مستقل ملازمین کا خاتمہ بھی ہے ۔ اب پرائیوٹ مافیا یہاں مرضی کی معمولی تنخواہوں پر نوجوانوں کو بھرتی کریں گے ۔ جب چاہا نکال دیا اور اس طرح ملک کے لاکھوں نوجوان یہ عارضی نوکریاں کرنے پر مجبور ہوں گے ۔ کوئی تحفظ بھی نہیں ۔ اس طرح حکومت تنخواہوں وغیر کی مد میں اربوں روپے کی بجت کرلے گی ۔
اسی طرح سرکاری اساتذہ کرام کے لئے پنشن ، لیو انکیشمنٹ سمیت دیگر مراعات میں کٹوتی اور کئی یکسر ختم کی جا رہی ہیں ۔ محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تنخواہیں پہلے ہی دیگر محکمہ جات کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں ۔ گویا ریاست فیصلہ کر چکی ہے کہ تعلیم کا بوجھ آہستہ آہستہ اتار دیا جائے گا۔تعلیم کا شعبہ پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے ہو گا۔ جو افورڈ کر سکے پڑھے یا ان پڑھ رہ کر سرمایہ داروں کا خدمت گزار بنے ۔دوسری جانب سرکاری تعلیمی ادارے جو کہ موجود رہیں انہیں کمرشلائزیشن اور سیلف فنانس پالیسی کے تحت اتنا مہنگا کر دیا جائے کہ حکومت کو اس مد میں کچھ بھی خرچ نہ کرنا پڑے ۔مستقل ملازمین کی بھرتی کی بجائے ڈیلی ویجز ، عارضی بنیادوں پر ٹیچرز دستیاب ہوں ۔ اس طرح حکومت تعلیم کے شعبے کا خرچہ بچا کر دیگر محکوموں کو نوازنے میں خرچ کر سکے ۔
یہ صرف سڑکوں پر مار کھاتے ، تشدد برداشت کرتے اور جیلوں میں بند سرکاری اساتذہ کا مسئلہ نہیں ۔ یہ دراصل اس ملک کے اسی فیصد سے زائد متوسط ، غریب اور لوئر مڈل کلاس عوام کا مسئلہ ہے کہ جن کی اولادوں کے لئے تعلیم کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں ۔ شعبہ تعلیم میں مستقل سرکاری ملازمتیں ختم کی جا رہی ہیں ۔ اربوں کی سرکاری پراپرٹی ، تعلیمی اداروں کی عمارتوں ، سہولیات کو من پسند سرمایہ داروں کے حوالے فلاحی اداروں کے نام پر کیا جا رہا ہے ۔جو عوام کے عطیات ، سرکاری فنڈز ، عوامی ٹیکسوں سے بنے ان اداروں سے مستفید ہوں گے اور اربوں کی آمدن کمائیں گے ۔ آئیے اپنے بچوں کے مستقبل کا سوچیئے۔ انہیں مہنگی تعلیم لینا ہو گی اور ملازمت کا ملنا ناممکن ہو گا ۔اس میں سب سے اہم سوال صرف اتنا ہے کہ سرکار پھر ٹیکس کس لئے اکھٹا کرتی ہے ۔ کیا صرف چند طاقتور محکموں کی عیاشی اور مخصوص طبقات کو نوازنے کے لئے ۔ حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ۔ یہ ایک سوال ہے ۔
محمد عاصم حفیظ